پاکستان کا سیاست دان چاہتا ہے کہ ملک میں وزیراعظم ، وزیراعلی ، قومی اسمبلی کے ممبران جمہوری طریقے سے بنے – یہی سیاست دان جب آئین پاکستان کے تحت ایم این اے ، ایم پی اے ، وزراء بن جاتے ہیں ، پھر 5 سال تک ان کے دماغ سے جمہوریت ، جمہوری روایات غائب — پھر آپ کبھی بھی انہی قومی ، صوبائی اسمبلی کے ممبران سے یہ بات نہیں سنے گے کہ جمہوریت کی بنیاد ، لوکل گورنمنٹ (بلدیاتی اداروں) کو بحال کیا جائے – یا اپنی پارٹیوں کے اندر حقیقی جمہوری روایات کے تحت انٹراپارٹی الیکشن کا انتظام کیا جائے – جب کوئی سر پھرا ان سے سوال کر بیٹھے کہ جناب کب بلدیاتی اداروں کو آئین پاکستان کے تحت مکمل آزادنہ اختیارات دے گے ، تو پھر یہی سیاست دان اور ان کے چمچے کرچھے یہ کہتے سنائی دیں گے کہ عوام ابھی جمہوری روایات سے ناآشنا ہے ، ان کو نچلی سطح پر جمہوری طریقے سے بلدیاتی ادارے چلانے کا تجربہ نہیں لحاظ عوام کو ابھی جمہوریت کی تربیت کی ضرورت ہے ، اس لیے ان کو نچلی سطح پر با اختیار نہیں کیا جا سکتا ، پر آفرین ہے ان سیاست دانوں کو، کہ ان کو خود ایم این اے، ایم پی اے ، وزیراعلی ، وزیراعظم بننا ہو تو جمہوریت سب سے بہترین ، عوام بہت اعلئ – لیکن جب ان کو اپنا اقتدار ، اختیارات تقسیم کرنے کی بات ہو تو اس وقت ان کے نزدیک عوام ان پڑھ ، جاہل اور بیوقوف – انٹراپارٹی الیکشن اور پارٹیوں میں طاقت کی تقسیم کی بات ہو تو اس وقت پارٹی ممبر ، یا کارکن پارٹی میں سب سے بڑا غدار کہلائے گا کہ جب وہ یہ پوچھے گا کہ جمہوری پارٹیوں میں کارکن ، ممبران جمہوری اقدار کو استعمال کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں گے کہ کس کو پارٹی کی نچلی سطح سے لیکر اوپر تک پارٹی عہدہ دینا ہے – تو اس وقت پھر انہی سیاست دانوں کو یہی کارکن سب سے بڑا جاہل ، بدتمیز اور پاکستان کے معروضی حالات ، گراؤنڈ ریلٹی کو نہ سمجھنے والا کہلائے گا – کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں، ان کے اردگرد گھومنے والوں کے نزدیک انٹراپارٹی جمہوریت میں کارکن کا کام صرف ووٹ دینا، جھنڈے اٹھانا اور تالیاں بجانا ہے ،